شنبه، آبان ۲۹، ۱۳۸۹

شیر بلوچستان شہید امیر عبدالمالک جان ہر وقت یہی فرماتے


آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔

لہٰذا موت سے بھاگنا بالکل ہی بیکار ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جو موت مقدر فرما دی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی نہ ایک سیکنڈ اپنے وقت سے پہلے آ سکتی ہے نہ ایک سیکنڈ بعد آئے گی.

لہٰذا بندوں کو لازم ہے کہ رضاء الہٰی پر راضی رہ کر صابر و شاکر رہیں.

اور یہ یقین رکھیں کہ جب تک میری موت نہیں آتی مجھے کوئی نہیں مار سکتا اور نہ میں مر سکتا ہوں۔

اور جب میری موت آ جائیگی تو میں کچھ بھی کروں کہیں بھی چلا جاؤں بھاگ جاؤں یا ڈٹ کر کھڑا رہوں میں کسی حال میں بچ نہیں سکتا۔

خاص طور پر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جہاد سے گریز کرنا یا جہاد کرنے سے ڈرنا۔

میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا ہرگز موت کو دفع نہیں کر سکتا لہٰذا مجاہدین کو میدان جنگ میں دل مضبوط کر کے ڈٹے رہنا چاہئے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ میں موت کے وقت سے پہلے نہیں مر سکتا ،

نہ کوئی مجھے مار سکتا ہے ،یہ عقیدہ رکھنے والا اس قدر بہادر اور شیر دل ہو جاتا ہے کہ خوف اور بزدلی کبھی اس کے قریب نہیں آتی اور ا س کے پائے استقلال میں کبھی بال برابر بھی کوئی لغزش نہیں آسکتی۔

اسلام کا بخشا ہوا یہی وہ مقدس عقیدہ ہے کہ جس کی بدولت مجاہدین اسلام ہزاروں مشرکین کفار کے مقابلہ میں تنہا پہاڑ کی طرح جم کر جنگ کرتے۔

یہاں تک کہ فتح مبین ان کے قدموں کا بوسہ لیتی تھی اور وہ ہر جگہ جنگ میں مظفر و منصور ہو کر اجر عظیم اور مال غنیمت کی دولت سے مالا مال ہوکر اپنے گھروں میں اس حال میں واپس آتے کہ ان کے جسموں پر زخموں کی کوئی خراش بھی نہیں ہوتی۔

اور وہ مشرکین کفار کے دل بادل لشکروں کا صفایا کر دیتے تھے۔

مجاہد اسلام کی زبان سے یہ ترانہ ۔

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے۔

پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے۔

حق سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے۔

تیغ کیا چیز ہے ؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے۔

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے۔

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے ۔

دالبندین آنلاین

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر