سه‌شنبه، آذر ۰۲، ۱۳۸۹

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں


آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
بُعِثتُ یَبنَ یَدَیِ السَّاعَةَ مَعَ السَّیفِ وَ جُعِلَ رِذقِی تَحتَ ظِلِّ رُمحِی وَجُعِلَتِ الذِّلَّةُ وَالصِّغَارُ عَلیٰ مَن خَالَفَ اَمرِی وَمَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنھُم
مجھے قیامت تک تلوار دے کر بھیجا گیا ہے اور میرا رز ق نیزے کے سائے کے نیچے رکھ دیا گیا ہے.

اور ذلت و رسوائی ان لوگوں کا مقدر ٹھہرادی گئی ہے جو میرے حکم ( جہاد) کی مخالفت کریں اور جو کسی قوم کی مشابہت کرے تو وہ انہی میں سے ہے-
غور فرمائیے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بھلا کس کا رزق پاکیزہ تر ہوسکتا ہے اور آگاہ ہو جانا چاہئے !

کہ جو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا رزق ہے تو وہ نیز ے کی انی میں ہے یعنی اس سے کفار کے سینے چھیدے جائیں گے ‘پیٹ پھاڑے جائیں گے ‘

ان کے وجود سے اللہ کی زمین کو پاک کیا جائے گا اور پھر مجاہدین ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنائیں گے اور ان کی جائیدادوں کے مالک بنیں گے-

اور جو لوگ ذلیل و خوار ہوں گے - کفار ان کی عزتیں پامال کریں گے اور ان کے دینی شعار کو ملیا میٹ کریں گے -
چنانچہ یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس امت کے لئے جہاد جاری رکھنے کا حکم قیامت تک کے لئے ہے .

آخری دور میں جناب عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو وہ بھی دجال کے خلاف جہاد کریں گے اور دین اسلام کو غالب کریں گے.

لہٰذا اب جو شخص اس جہادی حکم کے برعکس غلبہ اسلام کا کوئی طریقہ تلاش کرے -

غیر قوموں کی مشابہت کرتے ہوئے ان کا منہج اختیار کرے -

تووہ جس کی مشابہت کررہا ہے اس کا تعلق بھی انہی سے ہے اگرو ہ جمہوری طریق کار کو اپنا منہج بنا رہا ہے تو وہ عیسائیوں اورصلیبیوں کی مشابہت کررہا ہے .

اسی طرح اگر وہ مسلمانوں کا طریق کار اپناتا تولا محالا جہاد کو اختیار کرتا -

اس لئے کہ یہ طریق کار مسلمان امت کا ہے جو کہ مجاہد امت ہے اورجس کی عزت وقار اور معیشت ورزق کا انحصار جہاد میں مضمر ہے-
صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول کا جورزق تھا تو وہ یہودی قبیلے ” بنینضیر ‘ ‘ سے حاصل کئے گئے ” مال فئے“ پہ مشتمل تھا اس مال سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل عیال پہ خرچ کرتے اور جو باقی بچتا اسے اللہ کے راستے میں جہاد کی تیاری پر خرچ کردیتے-
ذرا ملاحظہ تو کیجئے ! مسلمانوں کا حال- کہ جب وہ ہجرت کرکے مدینے میںآئے تھے تو ان کی فاقہ کشی کا یہ حال تھا کہ کئی کئی دن تک ان کے چولھوں میں آگ نہ جلتی تھی۔

اور انہوں نے جہاد بھی شروع کیا تو حالت یہ تھی کہ سفر میں بسا اوقات انہیں دن بھر کے لئے ایک ایک کھجور فی مجاہد نصیب ہوتی۔

اور بسا اوقات یہ بھی نہ ملتی تو پتے کھانے پڑتے او رات پتوں کی وجہ سے ان کی قضائے حاجت یوں ہوتی جیسے بکری مینگنیاں کرتی ہے -

مگر اس کے باوجود مسلمانوں نے جہاد کیا اور متواتر جہاد کیا حتیٰ کہ اس جہاد ہی کی برکت سے اللہ نے انہیں مالامال کردیا۔

ا ور ایک وہ وقت بھی آیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں اعلان کر ادیا -

کہ اب جو کوئی مقروض مرے گا تو اس کا قرض اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ادا کریں گے۔

اور جوکوئی اس حال میں فوت ہوا کہ اس کے اہل عیال کی گزران کے لئے کچھ نہ ہو تو ان یتیموں او ربیواوں کی پرورش بھی حکمران مدینہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے-

غور کیجئے! یہ فراوانی کہاں سے آئی ؟ یقینا یہ فراوانی جہا د کی برکت سے کفار کے مال چھیننے سے آئی جو غنیمت بن کر مسلمانوں کے ہاتھ میں آیا۔

دالبندین آنلاین

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر