جمعه، آبان ۲۸، ۱۳۸۹

احمدی نژاداور خامنہ ای کے درمیان سخت اختلاف


امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے مطابق ان کے پاس چند شواہد موجود ہیں.

جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے صدر اور سپریم لیڈر کے درمیان عالمی طاقتوں کی جانب سے لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے اثرات پر اختلافات نمودار ہوئے ہیں۔

گیٹس کے مطابق خامنائی کو احساس ہونے لگا ہے کہ ایرانی صدر ان کو عالمی اقتصادی پابندیوں کے ایرانی معیشت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے غلط اعداد وشمار پیش کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر دفاع نے یہ بیان وال اسٹریٹ جرنل کی سینٹرل ایگزیکٹو آفس کونسل میں دیا۔

اس اجلاس میں ایرن پر لگائی جانے والی پابندیوں کے اثرات کا جائزہ لینا بھی شامل تھا۔

امریکی وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ پابندیوں کے اثرات ایرانی توقعات سے زیادہ سامنے آئے ہیں۔

گیٹس کے مطابق ان اثرات کی وجہ سے ایرانی قیادت کے اندر تفریق نظر آنے لگی ہے۔

اس موقع پر ایرانی جوہری پروگرام کے تناظر میں کسی ممکنہ فوجی ایکشن پر بھی اظہار خیال کیا گیا۔

رابرٹ گیٹس کا خیال ہے کہ سیاسی حکمت عملی کے بہتر اور مثبت اثرات پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ اس میں بات چیت اور پابندیوں کا عمل ساتھ ساتھ چل رہا ہے.

جب کہ فوجی ایکشن کی صورت میں ایران اپنے جوہری پروگرام کو دو سے تین سال کے لئے مؤخر کر دے گا۔

امریکی وزیر دفاع کے مطابق سیاسی حکمت عملی کے تحت سامنے آنے والی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی صدر کو اپنے ملک کی سب سے اعلیٰ شخصیت کی ممکنہ نارضگی کا سامنا ہونا شروع ہو گیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتہ کہا تھا کہ مغرب کو ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے فوجی ایکشن کے بارے میں سوچناچاہیے۔

امریکی وزیر دفاع، اسرائیلی وزیر اعظم کی رائے سے کلی طور پر متفق نہیں ہیں۔

گیٹس کے نزدیک ایران کے خلاف فوجی ایکشن کسی طور طویل المدتی اثرات کو ظاہر نہیں کرے گا۔

یہ ایک کم مدتی اثرات کا حامل عمل ہو گا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ کسی بھی فوجی ایکشن کے نتیجے میں فی الوقت منقسم ایرانی قوم ایک بار پھر متحد ہو جائے گی۔

گیٹس کا خیال ہے کہ اقتصادی دباؤ اور سفارتی عمل ایک بہترین طریقہ ہے اور اس سے ایران کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے متنازعہ جوہری پروگرام سے دستبردار ہو جائے۔
دوسری جانب ایران نے ایک سال سے زائد عرصے کے تعطل کے بعد چھ بڑی طاقتوں کے نمائندوں سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

سفارت کاروں کا خیال ہے کہ ایران بات چیت کی میز پر بیٹھ تو رہا ہے لیکن کسی بڑی پیش رفت کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر