چهارشنبه، آبان ۱۲، ۱۳۸۹

ایران پر اقتصادی پابندیاں، شہری گدھے کی سواری پر مجبور


ایران پر اس کے متنازعہ جوہری پروگرام کےتسلسل کےباعث سلامتی کونسل کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کے اثرات اب عام شہریوں کی زندگی پر دیکھے جا رہے ہیں۔

العربیہ ٹی وی کے نامہ نگاروں کی ایک رپورٹ کے مطابق اقتصادی پابندیوں کے باعث ایران میں پٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتیں آسماں کو چھو رہی ہے.

جبکہ ایک عام آدمی کے لیے مختصر مسافت تک ٹیکسی کا کرایہ ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس کی تازہ مثال ایران کے شمالی شہر "بوشہر" میں اس وقت دیکھی گئی .

جب وہاں"چالوس" نامی یونیورسٹی کا ایک طالب علم ٹیکسی کے بجائے گدھے پر سوار ہو کر درسگاہ پہنچا۔

طالب علم نے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر پہنچ کر اپنے گدھے سمیت اندر جانے کی کوشش کی تو وہاں موجود سیکیورٹی انتظامیہ نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

جب اسے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا،

تو گدھا سوار طالب علم کا کہنا تھا کہ "یہ سب اقتصادی پابندیوں کا ثمر ہے،

جو بڑوں کی طرف سے عائد کی گئی ہیں۔

اقتصادی پابندیوں کے باعث مہنگائی اور پٹرول انتا مہنگا ہو چکا کہ وہ ٹیکسی کا کرایہ ادا نہیں کرسکتا۔

جس کے باعث اس نے سواری کے لیے صدیوں پرانا طریقہ اختیار کیا ہے"۔

"عالمی بڑوں" سے ایرانی طالب علم کی مراد عالمی طاقتیں ہیں.

جن کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

ایرانی یونیورسٹی کے کسی طالب کا یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایران میں اقتصادی پابندیوں کے باعث گرانی اور اشیائے صَرف کی قلت کی خبریں روزکا معمول بن چکی ہیں۔

دوسری جانب ایرانی صدر عالمی پابندیوں کو صرف "کاغذ پر سیاہی"قرار دے چکےہیں۔

احمدی نژاد وسط اکتوبر میں دورہ لبنان کے موقع پر لبنانی حکومت کو بھی پٹرول اور ڈیزل کی کم نرخوں پر فراہمی کا وعدہ کر چکے ہیں۔

اقتصادی پابندیوں کے بے اثر ہونے کے دعوے صرف ایرانی صدر کی جانب سے نہیں بلکہ ایرانی انقلاب کے خامنہ ای بھی تکرار کے ساتھ ایسے دعوے کر چکے ہیں۔

ادھر ملک میں تواتر کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی بحران کے تناظر میں ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں.

یہ بحران سنہ 2009ء میں ہوئے صدارتی انتخابات کے بعد کے ہنگاموں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ معاشی زبوں حالی اور عام آدمی کی مشکلات بدستور قائم رہیں تو لوگ سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف سخت احتجاج کریں گے.

جس سے احمدی نژاد کی حکومت کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب حکومت نے عوامی احتجاج کو روکنےکے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی لیڈرشپ کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے کا بھی فیصلہ کر رکھا ہے۔
ایران اور عراق پر اقتصادی پابندیوں کا موازنہ
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام پر عائدعالمی پابندیاں ماضی میں عراق پر عائد پابندیوں کے مشابہ ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ زمینی سطح پر اقتصادی پابندیوں کے اثرات یکساں ہوں گے۔

عوام کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تاہم ماہرین ایران اور عراق پر اقتصادی پابندیوں کے حوالے سے ایک جوہری فرق ان ممالک کے داخلی صورت حال کےحوالے سے سامنے آ رہا ہے۔

عراق پر اقتصادی پابندیوں اور سابق صدر صدام حسین کے دور میں عوام نے پابندیوں کا کڑوا گھونٹ صبر سے برداشت کیا، لیکن ایران میں ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔

ایرانی سڑکوں پر نکل کر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر نہ صرف غور کر رہے ہیں بلکہ احتجاج جاری رکھے ہوئےہیں۔

عراق میں صدام کے مقابلے میں اپوزیشن بہت کمزور تھی جبکہ ایرانی حکومت کی طاقت کے استعمال کی پالیسی کے باوجود اپوزیشن موثر اور عوام کو سڑکوں پر لانےکی صلاحیت رکتھی ہے۔

ایرانی امور کے ماہر ایک عرب تجزیہ نگار احمد الشریفی نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "عراقی عوام صدام کی سخت گیری کی وجہ سے سڑکوں پر نکلنے سے گریزاں رہے.

اور اقتصادی پابندیوں کی سختیوں کو خاموشی سے جھیل گئے.

جبکہ ایران میں ایسا نہیں۔

یہاں شہری حکومت کےخلاف احتجاج کے عادی ہو چکے ہیں۔

اگرچہ ایرانی عوام کو بھی جون 2009ء کے صدارتی انتخابات کے متنازع نتائج پر طاقت سے دبانے کی کوشش کی گئی لیکن عملا احتجاج کا سلسلہ روکا نہیں جا سکا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کویہ خدشہ اب بھی لاحق ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے باعث گرانی کی بڑھتی لہر اپوزیشن کو عوام کو سڑکوں پر لانے کی کال دینے پر مجبور کر سکتی ہے۔

ایسی صورت میں حکومت کو مزید سخت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر