شنبه، آبان ۲۲، ۱۳۸۹

’’ایران کا اثر و رسوخ حزب اللہ ، حماس ، حتیٰ کہ یمن، افغانستان اور عراق تک بھی ہے۔


گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران اور اُس کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے درپیش خطرے کے پیشِ نظر جنگی بیان بازی سے گریز کیا ہے.

تاہم اِس ہفتے اپنے دَورہء امریکہ کے موقع پر نیتن یاہو نے جو الفاظ استعمال کئے، وہ خلافِ معمول زیادہ شدید تھے۔
نیتن یاہو نے کہا، ’اگر بین الاقوامی برادری امریکہ کی سرکردگی میں فوجی طاقت استعمال کئے بغیر ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنا چاہتی ہے تو پھر اُسے ایران پر یہ بات واضح کر دینی چاہئے.

کہ وہ ایک فوجی کارروائی کے لئے تیار رہے۔

محض ’سارے راستے بند کر دینے کا عمل‘ ایران کے خلاف کامیابی نہیں دلائے گا۔

ایران کا جوہری پروگرام ہر قیمت پر بند کروایا جانا چاہئے۔

ایران کا جوہری پروگرام وہ سب سے بڑا خطرہ ہے، جو ہمیں درپیش ہے.

امریکہ کا طرزِ عمل نیتن یاہو کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔

امریکی جریدے ’ڈیفینس نیوز‘ کے مطابق اگلے دو برسوں کے دوران 400 ملین ڈالر کا دفاعی ساز و سامان اسرائیل میں واقع امریکی فوجی اڈوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔

اِس طرح اسرائیل میں ذخیرہ کئے گئے امریکی ہتھیاروں کی مجموعی مالیت 1.2 ارب تک پہنچ جائے گی۔

کسی جنگ کی صورت میں یہ اسلحہ اور گولہ بارود امریکی ہی نہیں بلکہ اسرائیلی اَفواج کے بھی کام آئے گا۔

چار سال پہلے دوسری جنگِ لبنان کے دوران بھی اسرائیل نے امریکہ کے اِن ہتھیاروں سے استفادہ کیا تھا۔
اسرائیلی اخبار ’ہاریٹس‘ کا خیال ہے کہ خاص طور پر اُن ہتھیاروں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے،

جن کی مدد سے فضا سے کسی ٹھکانے کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

یہی ہتھیاروں کی وہ قسم ہے، جو ایران اور اُس کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف کسی جنگ کی صورت میں ایک خاص اور اہم کردار ادا کرے گی۔

اِسی ہفتے اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے اسرائیلی چیف آف سٹاف گابی اشکینازی نے اِن ہتھیاروں کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا تھا۔

جاتے جاتے وہ یہ پیغام دے کر گئے ہیں کہ ’احکامات دینے والوں سے لے کر عام یونٹوں تک پوری فوج غالباً ایک مرکزی نکتے پر متفق ہے.

اور وہ یہ کہ اسرائیلی فوج کو دو طرح کے حالات پیش آ سکتے ہیں۔ یا تو آپ کسی جنگ کی تیاری کرتے ہیں اور یا پھر آپ کوئی جنگ لڑتے ہیں۔

فوج اِسی مقصد کے لئے ہے.

یہ بات غیر واضح ہے کہ آیا اسرائیل میں واقع امریکی فوجی ڈپو ایران کے خلاف کسی ممکنہ جنگ کے لئے بھرے جا رہے ہیں؟

اِس سال فروری میں اسرائیل کے ایک دورے کے موقع پر امریکی چیف آف دی جنرل سٹاف مائیک مولن نے ایران کو مشرقِ وُسطیٰ کے استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

مولن نے کہا تھا:’’ایران کا اثر و رسوخ حزب اللہ تک ہے،

حماس تک ہے،

حتیٰ کہ یمن، افغانستان اور عراق تک بھی ہے۔

مَیں ایک طویل عرصے سے ایران کو خطے میں عدم استحکام کا باعث بننے والے ایک ملک کے طور پر دیکھ رہا ہوں اور مجھے وہاں کی قیادت اپنی پالیسیاں تبدیل کرتی نظر نہیں آتی۔‘‘
اِس تجزیے کے باوجود آئندہ بھی یہ کہا جا سکتا ہے.

کہ امریکی حکومت اسرائیل میں اپنے ڈپوؤں میں مزید اسلحہ منتقل کرتے ہوئے درحقیقت ایران کے خلاف اسرائیل کی تن تنہا فوجی کارروائی کو عمل میں آنے سے روکنا چاہتی ہے۔

ممکن ہے امریکہ اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہو کہ وہ امن کے لئے خطرات مول لینے پر آمادہ ہو جائے۔

تاہم آیا اسرائیلی حکومت اِن ہتھیاروں کی منتقلی سے مطمئن ہو جائے گی، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔

ابھی بدھ 10 نومبر کو اسرائیلی فوجی سیکرٹ سروس کے سربراہ اموس یادلین نے کہا تھا کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کی اتنی مقدار ہے کہ جس سے ایک ایٹم بم تیار کیا جا سکتا ہے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر